Friday, February 23, 2018



PROFESSIONAL JOURNALISM

IN

 Circle Bakote


***************************
Search and written by
Mohammed Obaidullah Alvi
Journalist, Historian, Anthropologist & Blogger
***************************
  صحافی اور کالم نگار
 کون ۔۔۔۔۔ کیسے ۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔۔۔ اور کہاں؟

 *************

کالم نگاری کیلئے چند ٹینیکس ۔۔۔۔۔ یہ بھی ایک سائنس ہے ۔۔۔۔۔ ان کو فالو نہ کیا تو آپ کی تحریر سے کسی علاقائی اخبار کا ڈبل کالم تو سیاہ ہو جاوے گا ۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ پڑھنے والے کے پلے کچھ نہیں پڑے گا
-----------------------------------
آخر میں بکوٹ کے نوجوان شاداب عباسی کا کالم پڑھئیے اور اس کے بارے میں اپنی رائے کا ضرور اظہار کیجئے تا کہ یہ نوجوان اس سے اگلی تحریر مزید دلجوئی سے لکھ سکے ۔***************

     ماشاء اللہ ہمارے سرکل بکوٹ میں تعلیم یافتہ نوجوان کالم نگاری کی طرف آ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ۔۔۔۔۔ وہ کیسے کالم لکھیں یعنی اس کی تیکنیک کیا ہے اور کہاں اسے شائع کروائیں ۔۔۔۔۔۔ میں اپنی ایم اے صحافت، ایم ایس سی ماس کام، انتھروپالوجی اور علوم اسلمیہ کی ڈگریوں سمیت اپنے 35 سالہ اردو، انگریزی ملک گیر قومی اخبارات اور اپنے علاقائی اخبار ہفت روزہ ہل پوسٹ کے تجربے سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کالم نگار بننے کیلئے جن صلاھیتوں اور ٹیکنیکس کی ضرورت ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں ۔۔۔۔۔
****** کالم نگار کیلئے تعلیم کم از کم گریجویشن ضروری ہے ۔۔۔۔ اس سے زیادہ ہو تو اس کے سوچنے، واقعات کو سمجھنے اور ان پس منظر میں کارفرما عوامل تک پہنچنے کی صلاحیت اہم کردار ادا کر سکتی ہے
****** ہمیں جو واقعات نظر آتے ہیں در اصل وہ ہوتے نہیں اور جو نظر نہیں آتے وہی اصل واقعات ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کل سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد نون لیگ اب کن حالات سے دوچار ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔ اس کے پیچھے کارفرما عوامل ۔۔۔۔۔ وزیر اعظم عباسی کسی بھی وقت گھر بھیج سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ گزشہ سال جولائی کے بعد ہونے والے الیکشن کالعدم ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ اگر نواز شریف عدلیہ کیخلاف محاذ آرائی ترک نہیں کرتے تو عدالتی جوڈیشنل ازم انہیں نون لیگ کا الطاف حسین بھی بنا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اب نون لیگ کو ایم کیو ایم (پاکستان) کی طرح الیکشن میں جانے کیلئے (ن) کا حرف بھی اپنے نام سے علیحدہ کر کے اپنا نام نامی بھی تبدیل کرنا ہو گا ۔۔۔۔۔ کیا نواز شریف فیملی مریم نواز کے بطور وزیر اعظم نامزدگی کی صورت میں اپنے حقیقی چچا اور حاضر سروس خادم اعلیٰ پنجاب کو برداشت کر سکے گی کیونکہ ۔۔۔۔۔ اقتدار کی دوڑ میں کوئی چچا بھتیجی نہیں ہوتا اور تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ اس اقتدار نے طاقتور حکمرانوں کو بھی ماضی کی دھول بنا دیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔ کالم نگار کے سامنے کسی بھی بڑی خبر کے بریک ہونے کے بعد اس طرح سوالات اس کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں اور انہی کا مدلل جواب، اندیشے، خطرات، امکانات کے ساتھ جواب اس کا کالم ہوتا ہے ۔
****** یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ۔۔۔۔ کالم نگار کو صرف دس اور پانچ روپے کے اخبارات ہی نہیں، قومی انگریزی، اردو اخبارات، پاکستانی سیاسی میگزینز، ٹائم، نیوز ویک، اکنامک ٹائمز اور انٹر نیٹ پر ہر ملک کے دستیاب اخبارات و جرائد کے علاوہ عالمی نشریاتی اداروں کا سننا بھیضروری ہے ۔۔۔۔۔ کالم نگاری کا شوق رکھنے والے فرزند کوہسار یہ بات یاد رکھیں کہ ۔۔۔۔۔ اچھا کالم سو صفحے پڑھ کر ایک صفحہ لکھا جا سکتا ہے ۔
****** کالم نگار جس موضوع پر بھی لکھنا چاہیں، اگر وہ غیرجانبداری سے اس کے مثبت اور منفی پہلئوں کو دلائل کے ساتھ اپنے قاری یا ناظر کے سامنے نہیں رکھیں گے، آخر میں اس کا خلاصہ بیان کر کے اپنا فیصلہ نہیں دیں گے تو اس کے بارے میں کہا جاوے گا ۔۔۔۔۔ ایں کار بے کاراں است۔
****** اردو کی تین زبانیں ماں کا درجہ رکھتی ہیں ۔۔۔۔۔ اردو نے ہندوستان میں پرورش پائی اور اس کے الفاظ کا بڑا حصہ اور ہندوستانی اور پاکستانی مزاج سنسکرت پر مبنی ہے، جس دوسری زبان نے اس میں نکھار پیدا کیا وہ فارسی ہے اور اردو کے اکثر الفاظ فارسی کے ہیں ۔۔۔۔۔ عربی ہماری دینی زبان ہے، اردو کے بانکپن، اعلی فلسفیانہ افکار اور نکھار میں عربی الفاظ اور لٹریچر کا بھی بڑا حصہ ہے ۔۔۔۔ کالم نگار اگر ان تینوں زبانوں کا واجبی سا علم بھی رکھے تو اس کی تحریر عالمانہ اور سنجیدہ ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔ جسے ہم ان للہ پڑھتے ہیں تو فضا سوگوار ہو جاتی ہے، ماشاء اللہ کہتے ہیں دو طبیعت نکھر جاتی ہے وغیرہ
******* کالم نگار کو حالات و واقعات کی موجودہ صورتحال سے مزید آگاہ ہونے کیلئے ہر طبقہ فکر سے ضرور فیڈ بیک لینا چائیے، یہ فیڈ بیک کسی بھی معاملے پر عام آدمی کے ری ایکشن کی حرارت کا پتا دیتا ہے ۔۔۔۔۔ اور جس ٹون میں عام آدمی بات کرے وہی انداز تحریر ہو تو وہ کالم ہٹ بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔ میں ایک دفعہ کہوٹی کی زاہد صاحب والی مسجد میں نماز کیلئے ووضو کر رہا تھا کہ وہاں دو بزرگ بھی باتوں میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان کی دو زندگیاں ہوتی ہیں، ایک طبعی اور دوسری شرعی زندگی، دوسرے نے پوچھا کہ وہ کیسے تو وہ بولے ۔۔۔۔۔ طبعی زندگی یہ ہے کہ میں پیدا ہوا، مہینے بعد، سالوں بعد مرگیا یا صدی پوری کرنے کے بعد بھی مرنے کی کوئی خواہش من میں پیدا نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔ مگر میں 63 سال کی عمر میں اگلے جہان شفٹ ہو گیا تو یہ میری شرعی عمر ہو گی ۔۔۔۔۔ یہ باتیں میں نے کسی کتاب میں نہیں پڑیں مگر بزرگوں کی ان باتوں نے میرے لئے علمی دروازے کھول دئے ۔
****** کالم نگار ایک وکیل کے منطق و معقول قسم کے دلائل کی طرح پھیکی زبان میں بات کرے گا تو قاری پہلا فقرہ ہی پڑھ کر اکتا جاوے گا ۔۔۔۔۔۔ اس لئے کالم نگار کو امام دین گجراتی سے لیکر علامہ اقبال سمیت فراز، فیض اور استاد دامن، بلکہ ہندوستان کے عہد قدیم کے ڈرامے شکنتلا کے خالق کالی داس، یونانی نابینا شاعر ہومر کی اوڈیسی، اور عہد جدید کے انگریزی، فارسی، ہندی اور عربی کا نیا پروڈیوس ہونے والا لٹریچر سے آگاہی بھی ہو تو کیا کہنے ۔۔۔۔۔۔؟ کالم میں مناسب جگہ پر مناسب اقتباس، کہاوت اور شعر کالم کے تسلسل میں قاری کی دلچسپی کو دو چند کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔ اگر نواز شریف کی دوسری نا اہلی پر کالم نگار اس شعر سے شروعات کرے کہ ۔۔۔۔۔۔
ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے
تو کیا مزہ نہیں آوے گا ۔۔۔۔۔؟
******* آپ خود کو صرف مذہب، معاشرت اور کامرس تک محدود نہ رکھیں ۔۔۔۔۔ جو بھی آپ کو حیرت زدہ کرنے والی بات ہو ۔۔۔۔۔۔۔ مثلاً ۔۔۔۔۔ آج بیروٹ میں ہمارے سامنے بڑے بڑے ڈوغے اور کھیتھر نظر آ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ کیا یہ ایک دن میں بن گئے تھے ۔۔۔۔۔ کیا ان کو ہم لوگوں یا ہمارے اجداد اور برادری نے بنایا ۔۔۔۔۔؟ اگر ایسا ہے تو گزشتہ پانچ ہزار سالہ تاریخ میں یہاں آباد دراوڑ، آریا راجپوت، کیٹھوال اور ستی قبائل کہاں سے اناج حاصل کرتے تھے ۔۔۔۔۔؟ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ کالم نگار حقائق کی تہہ تک پہنچنے کیلئے کھوجی کا کردار ادا کرے، تعلیم اور زبانوں کا علم زیادہ ہو گا تو آپ گوگل بکس پر جا کر اپنے مطلب کی کتاب ڈائون لوڈ کر کے پڑھ سکتے ہیں اور اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
    مجھے آج بکوٹ کے گرما گرم پی ٹی آئی کارکن ۔۔۔۔۔ شاداب عباسی ۔۔۔۔۔ نے ایک تحریر ان باکس کی ہے ۔۔۔۔۔ بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے سرکل بکوٹ کے نوجوان کیا اور کس نہج پر سوچتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس تحریر میں ہجوں کی درستگی اور بات کا تسلسل ضروری تھا، میں نے اس کو ایڈٹ کیا ہے اور وہ تحریر ذیل میں اپنے قارئین و ناظرین کے سپرد کرتا ہوں اور ان سے گزارش ہے کہ وہ اس بات سے قطع نظر کہ شاداب عباسی کا تعلق کس پارٹی سے ہے اسے ضرور پڑھیں، اس پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار بھی کریں تا کہ اس نوجوان کی حوصلہ افزائی ہو جس سے وہ آئندہ اچھا کالم لکھ سکے ۔۔۔۔۔ یہ بھی آپ کی نیکی ہو گی اور اس کا اجر ثواب آپ کو ہمارا رب ہی عطا کرے گا ۔۔۔۔۔ اب آپ شاداب عباسی کی تحریر پڑھئے اور اپنا موقف دیجئے ۔
 *****************************
 یونین کونسل بکوٹ میں ضلع اور تحصیل کے ضمنی انتخابات

تحریر شاداب عباسی

******************************
    پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر یونین کونسل بکوٹ کے ضلع کونسل جا کر اپنا سیاسی ٹریک بدل کر سردار شیر بہادر گروپ کا ساتھ دینے والے نذیر عباسی اور باسط نسیم عباسی نےجن بھی وجوہات پر پارٹی سے بغاوت کی، ان کو عدالت نے اور الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دے دیا ۔۔۔۔۔ اب سرکل بکوٹ کے ایک سٹیک ہولڈر کی طرف سے انتخابات کیخلاف لئے جانے والے حکم امتناعی کے اخراج کے بعد ۔۔۔۔ اب یو سی بکوٹ میں 20 مار چ2018 کو ضلعی اور تحصیل کی سیٹ پر الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ پی ٹی ای سے ووٹ لے کر پارٹی کے خلاف جا نے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی قیادت نے نذیر عباسی کا نام لسٹ سے نکال دیا۔ جس وجہ سے انھوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے ضلعی اور
تحصیل کی سیٹ پر اپنے کاغذات جمع کروائے ہیں۔
پی ایم ایل -این کا ابھی تک کوئی امیدوار میدان میں دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ اس لیے ووٹر کے تقسیم ہونے کا خاصا امکان ہے۔جس کا فائدہ دونوںاطراف کے امیدوار اٹھاہیں گے۔
بس ایک انتظار تھا تو ۔۔۔۔ پی ٹی ائی کے امیدوار کا تھا جس کی دوڑ میں 6 امیدوار میدان میں اترآئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ امیدوار کسی بھی وجہ سے اس دوڑ سے باہر ہو گئے اور کچھ نے ہمت نہ ہاری اور آخری دم تک کوشش کی کے ٹکٹ انہیں مل جائے۔ پر ٹکٹ تو کسی ایک کو ملنا تھا اور آخر ضلعی کی سیٹ پر ٹکٹ جناب شوکت ارباب عباسی کا نکلا ۔۔۔۔۔ جبکہ تحصیل کا ٹکٹ جناب چودھری ریاض نکلا جن کا تعلق یو سی بکوٹ کی وی سی علی آباد سے ہے ۔
    اس ضمنی انتخابات کیلئے آخری دم تک تحصیل کے ٹکٹ کے لیے لڑنے والوں میں ۔۔۔۔ جناب راشد نثار عباسی کی اب کیا حکمت عملی کیا ہو گئی ابھی کچھ نہیں کہاجا سکتا۔ ۔۔۔۔اگر وہ تحصیل کی سیٹ پر آزاد حیثیت سے میدان میں اترتے ہیں تو تحصیل میں ان کا مقابلہ آزاد امیدوار باسط نسیم عباسی سے اور پی ٹی ائی کے ٹکٹ ہولڈر چودھری ریاض سے ہو گا۔
یونین کونسل بکوٹ کے ضمنی انتخابات میں جو بھی جیت پائے گا ۔۔۔۔ کیا وہ عوام کے لیئے ابیٹ اباد سے تین سالوں کےدوران روکے ہوئے فنڈز کی صورت میں اپنا حق اپنی یو سی میں لانے میں کامیاب ہو پائے گا ۔۔۔۔۔۔ اگر تو ایسا ہو جاتا ہے تو تین سالوں کے کثیر فنڈ زعوام کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔فیصلہ توعوام نے کرنا ہے کہ۔ ۔۔۔کون ان کے لیے بہتر ہے اور کون نہیں۔۔۔۔۔؟
20 مارچ 2018 کو عوام جان جائیں گے کہ کون ان کے لیے یہ روکے فنڈز لائے گا۔۔۔۔۔ عوام بہتر جانتے ہیں کس نے پارٹی سے غداری کی۔۔۔۔؟ کیا ایسے امیدوار کو پھر آزمایا جائے یا پی ٹی ای کے امیدوار کو آزمایا جائے۔ جنھوں نے یونین کونسل بکوٹ کووی سی سطح پر سب سے زیادہ فنڈز، ڈگری کالج کا تحفہ اور ہائیڈرو پراجکٹ دیا، تعلیم میں پرائمری سطح تک انقلاب پرپا کیا ۔۔۔۔۔ یہ وہ کام ہیں جن کو پی ٹی ائی لے کر عوام میں جائے گی ۔۔۔۔۔ اب عوام کے ہاتھ میں چھ کونوں والی سٹیمپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس کو بہتر سمجھتے ہیں اور کس کے بیلٹ باکس میں ووٹ ڈالتے ہیں ۔۔۔۔۔؟
------------------------------------
جمعہ23/فروری2018