Sunday, September 18, 2016

کوہسار کی اخبار فروش کمیونیٹی 

پڑھا جانیوالا مواد خواہ وہ نیوز ہو، ایڈیٹر کے نام خط یا یا کوئی کالم، فیچر یا آرٹیکل ۔۔۔۔ لکھے جانے سے قاری کے دماغ میں ہلچل پیدا کرنے تک کن مراحل سے گزرتا ہے اس کی ۔۔۔۔ مثال ۔۔۔۔ آپ یو ں لے سکتے ہیں کہ ۔۔۔۔ ایک  زمین میں بیج بونے سے کہاں کہاں اور کن ہاتھوں سے ہو کر  ۔۔۔۔ آپ کے معدے تک پہنچنے والا دانہ گندم کتنے مراحل طے کرتا ہے ۔۔۔۔؟ مقصد دونوں کا ایک ہی ہے ، ایک آپ کی فکری، تہذیبی اور نا معلوم سے معلوم کی پیاس بھجانا ہے ۔۔۔۔ جبکہ ۔۔۔۔ دانہ گندم آپ کی اور میرے پیٹ کی  بھوک مٹاتا ہے ۔۔۔۔ جاننے سے بھوک پیاس مٹانے تک کے عمل میں ایک نہیں ۔۔۔۔ درجنوں ہاتھ حصہ لیتے ہیں تب ہی وہ آپ کی ضرورت پورا کرتا نظر آتا ہے ۔۔۔۔  خبر واقعہ (ابلاغ عامہ کی تعریف میں بیان بازی خبر نہیں مانی جاتی) کے ظہور پذیر ہونے سے بنتی ہے، ذرائع ابلاغ کا بنیادی  عنصر (Fundamenral Eliment) ہی نیوز، نبا، خبر اور آگاہی ہے ۔۔۔۔ جیسے ۔۔۔۔ تعلی اداروں میں طلبا اور ٹیچرز، ہسپتالوں میں مریض اور ڈاکٹرز، بلدیات میں عوامی مسائل اور کونسلرز اور ٹرانسپورٹ میں مسافر اور ڈرائیورز ۔۔۔۔۔ پرنٹ میڈیا میں نیوز ہی اس کا بنیادی مقصد ہے ، دیہی علاقوں میں نامہ نگار اور نمائندے اور شہروں میں اخبار کے رپورٹرز اس واقعہ کو رپورٹ کرتے ہیں، پہلے یہ ایڈیٹرز کے پاس آتی ہے، وہ اس کو سرخیوں کے ساتھ پڑھنے کے قابل بناتے ہیں، ان کی قارئین کی پڑھنے کے ذوق پر نظر ہوتی ہے ۔۔۔۔ اس کے بعد یہ خبر پروڈکشن میں جاتی ہے اور وہ کاپی ایڈیٹر اسے  ایسا ڈسپلے دیتا ہے جو آپ ہر روز اخبارات میں دیکھتے ہیں ۔۔۔۔ اس کے بعد یہ پریس میں دو لاکھ  کاپی فی گھنٹہ کی رفتار سے چھپ کر ۔۔۔۔ اخبار فروش کے ہاتھ میں آتا ہے ۔۔۔۔ یہ اخبار فروش ۔۔۔۔ آگ برساتی گرمی ہو ۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔ رگوں میں خون منجمد کرنے والی سردی ۔۔۔۔ ہر روز علی الصبح ۔۔۔۔ نور پیر نیں ویلے ۔۔۔۔ اٹھتا ہے ۔۔۔۔ اخبار مارکیٹ پہنچ کر اپنے قارئین کیلئے اخبار اکٹھے کرتا ہے اور ۔۔۔۔ ہر روز شہروں میں آٹھ بجے سے پہلے ۔۔۔۔ جبکہ دیہی علاقوں میں ۔۔۔۔ دوپہر تک اخبار پہنچاتا ہے ۔۔۔۔۔ سال میں صرف ۔۔۔۔ عیدین پر چار، دس محرم اور عید میلادالنبیﷺ پر ایک ایک چھٹی ۔۔۔۔ کل سال میں چھ چھٹیاں کرتا ہے ۔۔۔۔ ؟ آپ کتنی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یقیناً صحافیوں اور اخبار فروشوں سے تو زیادہ کرتے ہوں گے ۔

 اہلیان کوہسار ۔۔۔۔ اس پروفیشن میں 50  کی دہائی میں داخل ہوئے، سب سے پہلے یہ اعزاز اہل پھگواڑی کو حاصل ہوا ۔۔۔۔ پھر کوٹلی ستیاں اور آخر میں یو سی بیروٹ کو ۔۔۔۔ نکر موجوال کے چوہدری محمد اسحاق عباسی اس پیشے میں آئے اور اپنے کئی ہموطنوں کو پہلے اخبار فروش، پھر اخبارات کے مرکزی دفاتر میں رپورٹر اور اب ایڈیٹر (شاکر عباسی اس کی مثال ہیں) بنا کر ریٹائرڈ ہوئے ہیں ۔۔۔۔ اہلیان کوہسار کو اخبار فروشی کے پیشے کو معزز، باوقار اور اخبار نویسی میں ریڑھ کی ہڈی بنانے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔۔۔۔ ٹکا خان اس پیشے کا وہ  عالی مرتبت نام ہے جس کے در پر ۔۔۔۔ بڑے بڑے ایڈیٹر ان چیفس بھی سجدہ ریز نظر آتے ہیں ۔۔۔۔؟
 ایک کھلنڈرا سا نوجوان میٹرک کے بعد روزگار کیلئے پنڈی آ گیا ۔۔۔۔ والد ایک محنت کش تھا مگر ۔۔۔۔ اپنے کمس تین بیٹوں کو یتیم، سہاگن کو بیوہ اور بوڑھی والدہ کو  ۔۔۔۔ اپنے رب کے آسرا پر چھوڑ کر بارگاہ خداوندی میں حاضر ہو گیا ۔۔۔۔ کوئی نامی گرامی خاندانی پس منظر بھی نہ تھا ۔۔۔۔ مگر اس نوجوان نے خود کو پہلے پنڈی اور پھر اسلام آباد کو اپنا ٹھکانہ بنایا ۔۔۔۔  سینیٹر مشاہد حسین سید کی ادارت میں نکلنے والےاسلام آباد کے پہلے انگریزی اخبار روزنامہ مسلم کا آفس ہوتا، یہ وہاں ہی رہتا ۔۔۔۔ ایڈیٹرز، رپورٹرز اور پروڈکشن سٹاف سے اس کی ہیلو ہائے ہوئی اور یہ ۔۔۔۔ صحافتی اسرار و رموز بھی سمجھتا اور سیکھتا گیا ۔۔۔۔ اسے اخبار فروش یونین کا جنرل سیکرٹری بھی بنایا گیا ۔۔۔۔ اور آج بھی ۔۔۔۔ وہ تقریباً ۔۔۔۔ 30  برسوں سے لگا تار اس عہدہ پر فائز چلا آ رہا ہے ۔۔۔۔ اس نے ان تین دہائیوں پر پھیلے عرصہ میں ۔۔۔۔ اخبار فروشوں کے اس پارٹ ٹائم جاب کو فل ٹائم کیا ۔۔۔۔ ان کے کمیشن میں اضافہ کر کے نصف قیمت میں اخباری مالکان کے ساتھ سانجھے دار بھی بنایا ۔۔۔۔ ان کے رہائشی مسئلے کو بھی حل کیا ۔۔۔۔ اسلام آباد میں ان کے بچوں کےلیئے تعلیمی کوٹہ کو بھی حاصل کیا ۔۔۔۔  ہسپتالوں میں ۔۔۔۔ اخبار فروشوں کی فیملیز کو علاج کیلئے ماہر ڈاکٹروں کا انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا اور وہ خود چل کر ان کے پاس آتے ہیں ۔۔۔۔ تھانہ کچہری کے معاملات پیش ہوں تو اخبار فروش فیڈریشن ان کو خود ہینڈل کرتی ہے ۔۔۔۔۔ میرے وطن کے اداس لوگو ۔۔۔۔۔ لیڈر شپ اسی کو کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ ہیں کوہسار کا اسلام آباد، لاہور، پشاور اور کراچی میں نام روشن کرنے والے اخبار فروش لیڈر ۔۔۔۔۔ جناب ٹکا خان عباسی

میرا ان سے پہلا تعارف صدر کراچی کے جبیس ہوٹل     میں ہوا، میں ان سے 1988 میں ہفت روزہ ہل پوسٹ کے انٹرویو کے سلسلے میں ملا ۔۔۔۔ انٹرویو کیا اور اسے چھاپا بھی ۔۔۔۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ۔۔۔۔ انہوں نے ہوٹل میں اپنے کپڑے خود دھوئے تھے ۔۔۔۔ اور خود ایک دھوتی اور بنیان میں اپنے کمرے کے صوفے پر بیٹھے مجھ سے میری مادری زبان میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بات چیت کر رہے تھے ۔۔۔۔ مجھے ان کے ساتھ نصف سال تک کام کرنے کا بھی موقع ملا ۔۔۔۔ انہوں نے اسلام آباد سے ایک ہفت روزہ مسلمان بھی نکالا تھا ۔۔۔۔ 1990 میں خراب حالات کے باعث مجھے کراچی چھوڑنا پڑا تو ۔۔۔۔ ان کے اسی ہفت روزہ  مسلمان میں ٹکا خان نے میرا بطور ایڈیٹر تقرر کیا ۔۔۔۔ اس دوران میں عروسی زندگی میں داخل ہوا اور سامنے آنے والی ۔۔۔۔۔ میری ایک بہت بڑی مشکل کو بھی اسی ٹکا خان نے ایک ہی دن میں حل کر ڈالا ۔۔۔۔ اتنی بڑی مشکل تھی کہ ۔۔۔۔ اسے حل کئے بغیر شادی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔۔۔۔۔ اسی دوران ۔۔۔۔۔  نواز شریف کو  صدر گلام اسحاق خان نے وزیر اعظم ہائوس سے سبکدوش کر کے رائے ونڈ بھیجا تو ۔۔۔۔۔ ملک معراج خالد کی وزیراعظمی میں   عبوری حکومت بنی تو ۔۔۔۔۔ ٹکا خان عباسی کو معراج خالد کی اس کابینہ میں وزیر لیا گیا اور طمطراق سے وزیری بھی کی ۔۔۔۔۔ ٹکا خان کی شخصیت کا ایک راز یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ وہ قطعاً سادہ لوح نہیں، وہ نہایت سادہ طبیعت کے مالک ہیں ۔۔۔۔ فیض آباد راولپنڈی سے شائع ہونے والے روزنامہ مسلمان کے ایڈیٹر انچیف اور اخبار فروشوں کے سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہونے کے باوجود آج تک ان گردن میں سریا(Iron rod)  نہیں آیا ۔۔۔۔۔ اخبار مارکیٹ آبپارہ اسلام آباد میں آپ ان سے کسی پروٹوکول کے مل سکتے ہیں ۔۔۔۔ وہ سگریٹ پر سگریٹ سلگاتے ہوئے آپ کی بات نہایت توجہ سے سنیں گے ۔۔۔۔ کوئی مسئلہ حل کے قابل ہوا تو  وہ اپنے وزیٹنگ کارڈ کی پشت پر رقعہ لکھیں گے ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ آپ کا کام ڈیڑھ سو فیصد یقینی ہو گا ۔۔۔۔۔ اگر مسئلہ ان کی رینج سے باہر ہوا ۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر ۔۔۔۔۔ معذرت کر دیں گے ۔۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں لیڈر شپ ۔۔۔۔۔ جس سے ہمارے سرکل بکوٹ سمیت کوہسار کی تمام قیادت تہی دست ہے ۔۔۔۔۔ تمام تر سرکاری مراعات، اختیارات اور رٹ کے باوجود ۔۔۔۔۔ وہ اخبار فروش لیڈر کی  خدمت میں اس کی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکتے ۔۔۔۔۔




No comments:

Post a Comment